the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز
etemaad live tv watch now

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ دیویندر فڑنویس مہاراشٹر کے اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے
شاہد آفریدی اور شعیب ملک نے ہندوستان میں اپنی آمدکے بعد پریس کانفرنس میں کہاکہ جتنا پیارانہیں ہندوستان میں ملا، اتنا پاکستان میں بھی نہیں ملا۔ بس پھر کیا تھا۔ پاکستان میں طوفان سا آگیا۔ کسی نے فوجداری مقدمہ دائر کیا، کسی نے غدار وطن قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ عام آدمی کا اگر یہ ردعمل ہوتا تو اس کی اہمیت نہیں تھی، افسوس اسبات کا ہے کہ کرکٹ کی تاریخ کی ایک عظیم ہستی جاوید میاں داد نے بھی شاہد آفریدی کے حق میں ایسے ہی الفاظ استعمال کئے۔ انہیں سوچ سمجھ کر بات کرنے کا مشورہ دیا۔ جاوید میاں داد کے ایک دیرینہ مداح کی حیثیت سے کم از کم مجھے دلی تکلیف ہوئی۔ میاں داد کو بھی جتنی محبت ، جتنا پیار ہندوستان میں ملا، شاید پاکستان میں بھی نہیں ملا ہوگا۔ آسٹریلیشیاء کپ کے فائنل میں چیتن شرما کی آخری گیند پر چھکا لگا کر انہوں نے سب کا دل جیتا تھا، اسی میچ کے اختتام پر انہیں گراؤنڈ پر سونے کی تلوار پیش کی گئی تھی، کس نے پیش کی تھی،وہ سبھی جانتے ہیں، جی ہاں داؤد نے جو اس وقت (1986)میں ہندوستان ہی میں رہا کرتے تھے، اور دنیا میں جہاں کہیں ہند۔پاک کرکٹ مقابلے ہوتے وہ موجودہوتے۔ 1993 کے بعد داؤد ابراہیم ہندوستان کے لئے مجرم ہوگئے ، اور خود میاں داد کے وہ سمدھی بن گئے۔ خیر یہ تو ایک واقعہ تھا، شارجہ ، دوبئی ہو یا ہندوستان میں جب کبھی ہند۔ پاک مقابلے ہوئے، دونوں ممالک کے درمیان حساس نوعیت کے تعلقات کے باوجود این آر آئیز ، اور ہندوستانی عوام نے پاکستانی کھلاڑیوں کی ہمیشہ پذیرائی کی۔ ان کے کھیل کو سراہا۰۰۰
جاوید میاں داد بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہندوستان میں کئی فسادات تو محض اس لئے ہوتے رہے کہ یہاں کے عوام نے پاکستانی کھلاڑیوں اور ٹیم کے اچھے کھیل کی ستائش کی۔ اگر وہ ہندوستانی شائقین کرکٹ کی پاکستانی کھلاڑیوں سے محبت کو فراموش کرتے ہیں تو افسوسناک ہے۔ ہند۔ پاک تعلقات کے درمیان جب سفارتی تعلقات 17برس بعد بحال ہوئے اور 1979میں پاکستانی ٹیم نے ہندوستان کا جوابی دورہ کیا تو ٹیم کے ارکان جس شہر میں بھی گئے وہاں ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ جامع مسجد دہلی میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے گئے تو ایک کھلاڑی (غالباً احتشام الدین) کے دھوکہ میں اس کے ہمشکل کو لوگوں نے اپنے کندھوں پر اٹھالیا تھا۔ آج شاہد آفریدی نے اسی پیار محبت کا اظہار کیا تو پاکستانی برادران ناراض ہوگئے، انہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ ان کے ساتھی کھلاڑی کس قدر ہمسائے ملک میں مقبول ہیں، کشیدہ سیاسی حالات کے باوجود عوام انہیں چاہتے ہیں، ان پر محبت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔ شعیب ملک پر ناراضگی تو غیر ضروری ہے کیونکہ انہیں واقعی ہندوستان میں پیار ملا۔ جی ہاں۔ ثانیہ مرزا ان کا پیار ہی تو ہے۔ وہ ہندوستان کے داماد ہیں، ان کے اچھے مظاہرے پر ہندوستانی خوش ہوتے ہیں، شاہد آفریدی ہوں یا محمد عامر، انضمام الحق ہوں یا محمد حفیظ ۔ انہیں پاکستانی شہری ہونے کی وجہ سے نہیں چاہا جاتا، بلکہ ان کے کھیل کی وجہ سے ان کی عزت ہے۔ ہاشم آملہ، عمران طاہر، کو ساؤتھ آفریقہ سے زیادہ ہندوستانی شائقین کرکٹ چاہتے ہیں۔ اگر وہ اس کا اعتراف کریں تو کیا وہ اپنے ملک کے غدار ہیں۔ افسوس ہے کہ اس قسم کی ذہنیت عام تنگ نظر افراد کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں میں بھی نمو پارہی ہے۔ کھلاڑی تو اپنے ملک کے تہذیبی سفیر ہوتے ہیں، ان کی اسپورٹسمین اسپرٹ انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔
کئی ہندوستانی کھلاڑیوں نے پاکستانی کرکٹرس سے بہت کچھ سیکھا ہے، کسی نے وسیم اکرم کو اپنا آئیڈیل مانا، کسی نے ظہیر عباس سے بیٹنگ کے گر سیکھے۔ کئی پاکستانی کرکٹرس نے سچن تینڈولکر، کپل دیو، سنیل گواسکر، کو خراج تحسین پیش کیا، ابھی حال ہی میں پاکستانی وکٹ کیپر بیٹسمن سرفراز نے دھونی کو اپنا آئیڈیل قرار دیا اور تمنا ظاہر کی کہ وہ ان کی طرح بیٹنگ اور وکٹ کیپنگ کرسکیں۔ کیا سرفراز کو بھی غدار وطن کہا جائے گا۔ حال ہی میں ویراٹ کوہلی کے ایک پاکستانی مداح کو ترنگا لہرانے کی پاداش میں سزا بھی دی گئی اور وطن سے غداری کا مقدمہ بھی اس کے خلاف دائر کیا گیا۔ ایسے وقت جب دونوں ممالک کے درمیان حالات کو بہتر بنانے کی ذمہ داری کھلاڑیوں پر بھی ہے، میاں داد جیسے کھلاڑیوں کو چاہیے کہ وہ خود سمجھداری کا مظاہرہ کریں ہمیں یاد ہے کہ جب میاں داد آخری بار ہندوستان آئے تھے کرکٹ سیریز میں حصہ لینے کے لئے ، شیوسینا نے ممبئی میں پاکستان کے میچس کی مخالفت کی تھی اس وقت میاں داد نے ٹھاکرے سے ملاقات کی خواہش کی تھی اور شیوسینا کے سربراہ بال ٹھاکرے سے ان کے مکان ماتو شری جاکر ان سے ملاقات کی تھی، کیوں۔؟
کاش اس وقت ان سے یہ سوال پاکستانی عوام کرتے کہ جس شخص نے پاکستان کی دشمنی میں تمام ریکارڈ توڑدےئے جو پاکستانی وجود کو برداشت نہیں کرسکتا، اس کے در پر حاضری کیوں دی گئی۔ نہ تو کسی پاکستانی نے اور نہ ہی کسی ہندوستانی مسلمان نے میاں داد کی مخالفت کی، بلکہ اسے اعلیٰ ظرفی قرار دیا گیا۔ حتیٰ کہ خود بال ٹھاکرے نے اس وقت میاں داد کے کھیل کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے آخری گیند کے چھکے کو ناقابل فراموش واقعہ قرار دیا تھا۔
اس وقت ہندوستان کے کئی ٹی وی چیانلس پر پاکستانی کرکٹرس مبصرین کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، رمیض راجہ، عمران خان، انضمام الحق، شعیب اختر، وسیم اکرم ہندوستانی چیانلس پر اپنے تبصروں کی وجہ سے مقبول ہیں۔ ایسے دور میں جبکہ پاکستانی کرکٹرس کے لئے IPLکے دروازے بند ہیں، ٹی وی چیانلس نئے دروازے کشادہ کئے ہیں، شاہد آفریدی اور شعیب ملک کے خیالات باہمی تعلقات کی بہتری کے حق میں ہیں۔
میاں داد اور بعض دوسرے حضرات کی تنگ نظری کا منفی اثر ہوگا۔ ضرورت اسبات کی ہے کہ وسیع القلبی اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا جائے۔ حال ہی میں ہندوستان کے روہت شرمانے شعیب اختر پر تنقید کی کہ وہ بہت زیادہ ہندوستان کی تعریف کررہے ہیں۔ ہر جگہ تنگ نظری ہے، شاہد آفریدی اور شعیب ملک ہندوستان کی تعریف کرتے ہیں تو پاکستان کے بعض تنگ نظر احتجاج کرتے ہیں، اور شعیب اختر ، تعریف کرتے ہیں تو روہت شرما کے پیٹ میں مروڑ ہوتی ہے۔ کھلاڑیوں کو عام آدمی کی سطح سے بلند ہوکر سوچنا اور خیالات کا اظہار کرنا چاہیے۔ آپ تنگ نظری کا مظاہرہ کریں اور ہندوستان سے کشادہ دلی کی توقع رکھیں یہ ممکن تو نہیں۔!
شاہد آفریدی



اور شعیب ملک نے ہندوستان میں اپنی آمدکے بعد پریس کانفرنس میں کہاکہ جتنا پیارانہیں ہندوستان میں ملا، اتنا پاکستان میں بھی نہیں ملا۔ بس پھر کیا تھا۔ پاکستان میں طوفان سا آگیا۔ کسی نے فوجداری مقدمہ دائر کیا، کسی نے غدار وطن قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ عام آدمی کا اگر یہ ردعمل ہوتا تو اس کی اہمیت نہیں تھی، افسوس اسبات کا ہے کہ کرکٹ کی تاریخ کی ایک عظیم ہستی جاوید میاں داد نے بھی شاہد آفریدی کے حق میں ایسے ہی الفاظ استعمال کئے۔ انہیں سوچ سمجھ کر بات کرنے کا مشورہ دیا۔ جاوید میاں داد کے ایک دیرینہ مداح کی حیثیت سے کم از کم مجھے دلی تکلیف ہوئی۔ میاں داد کو بھی جتنی محبت ، جتنا پیار ہندوستان میں ملا، شاید پاکستان میں بھی نہیں ملا ہوگا۔ آسٹریلیشیاء کپ کے فائنل میں چیتن شرما کی آخری گیند پر چھکا لگا کر انہوں نے سب کا دل جیتا تھا، اسی میچ کے اختتام پر انہیں گراؤنڈ پر سونے کی تلوار پیش کی گئی تھی، کس نے پیش کی تھی،وہ سبھی جانتے ہیں، جی ہاں داؤد نے جو اس وقت (1986)میں ہندوستان ہی میں رہا کرتے تھے، اور دنیا میں جہاں کہیں ہند۔پاک کرکٹ مقابلے ہوتے وہ موجودہوتے۔ 1993 کے بعد داؤد ابراہیم ہندوستان کے لئے مجرم ہوگئے ، اور خود میاں داد کے وہ سمدھی بن گئے۔ خیر یہ تو ایک واقعہ تھا، شارجہ ، دوبئی ہو یا ہندوستان میں جب کبھی ہند۔ پاک مقابلے ہوئے، دونوں ممالک کے درمیان حساس نوعیت کے تعلقات کے باوجود این آر آئیز ، اور ہندوستانی عوام نے پاکستانی کھلاڑیوں کی ہمیشہ پذیرائی کی۔ ان کے کھیل کو سراہا۰۰۰
جاوید میاں داد بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہندوستان میں کئی فسادات تو محض اس لئے ہوتے رہے کہ یہاں کے عوام نے پاکستانی کھلاڑیوں اور ٹیم کے اچھے کھیل کی ستائش کی۔ اگر وہ ہندوستانی شائقین کرکٹ کی پاکستانی کھلاڑیوں سے محبت کو فراموش کرتے ہیں تو افسوسناک ہے۔ ہند۔ پاک تعلقات کے درمیان جب سفارتی تعلقات 17برس بعد بحال ہوئے اور 1979میں پاکستانی ٹیم نے ہندوستان کا جوابی دورہ کیا تو ٹیم کے ارکان جس شہر میں بھی گئے وہاں ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ جامع مسجد دہلی میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے گئے تو ایک کھلاڑی (غالباً احتشام الدین) کے دھوکہ میں اس کے ہمشکل کو لوگوں نے اپنے کندھوں پر اٹھالیا تھا۔ آج شاہد آفریدی نے اسی پیار محبت کا اظہار کیا تو پاکستانی برادران ناراض ہوگئے، انہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ ان کے ساتھی کھلاڑی کس قدر ہمسائے ملک میں مقبول ہیں، کشیدہ سیاسی حالات کے باوجود عوام انہیں چاہتے ہیں، ان پر محبت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔ شعیب ملک پر ناراضگی تو غیر ضروری ہے کیونکہ انہیں واقعی ہندوستان میں پیار ملا۔ جی ہاں۔ ثانیہ مرزا ان کا پیار ہی تو ہے۔ وہ ہندوستان کے داماد ہیں، ان کے اچھے مظاہرے پر ہندوستانی خوش ہوتے ہیں، شاہد آفریدی ہوں یا محمد عامر، انضمام الحق ہوں یا محمد حفیظ ۔ انہیں پاکستانی شہری ہونے کی وجہ سے نہیں چاہا جاتا، بلکہ ان کے کھیل کی وجہ سے ان کی عزت ہے۔ ہاشم آملہ، عمران طاہر، کو ساؤتھ آفریقہ سے زیادہ ہندوستانی شائقین کرکٹ چاہتے ہیں۔ اگر وہ اس کا اعتراف کریں تو کیا وہ اپنے ملک کے غدار ہیں۔ افسوس ہے کہ اس قسم کی ذہنیت عام تنگ نظر افراد کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں میں بھی نمو پارہی ہے۔ کھلاڑی تو اپنے ملک کے تہذیبی سفیر ہوتے ہیں، ان کی اسپورٹسمین اسپرٹ انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔
کئی ہندوستانی کھلاڑیوں نے پاکستانی کرکٹرس سے بہت کچھ سیکھا ہے، کسی نے وسیم اکرم کو اپنا آئیڈیل مانا، کسی نے ظہیر عباس سے بیٹنگ کے گر سیکھے۔ کئی پاکستانی کرکٹرس نے سچن تینڈولکر، کپل دیو، سنیل گواسکر، کو خراج تحسین پیش کیا، ابھی حال ہی میں پاکستانی وکٹ کیپر بیٹسمن سرفراز نے دھونی کو اپنا آئیڈیل قرار دیا اور تمنا ظاہر کی کہ وہ ان کی طرح بیٹنگ اور وکٹ کیپنگ کرسکیں۔ کیا سرفراز کو بھی غدار وطن کہا جائے گا۔ حال ہی میں ویراٹ کوہلی کے ایک پاکستانی مداح کو ترنگا لہرانے کی پاداش میں سزا بھی دی گئی اور وطن سے غداری کا مقدمہ بھی اس کے خلاف دائر کیا گیا۔ ایسے وقت جب دونوں ممالک کے درمیان حالات کو بہتر بنانے کی ذمہ داری کھلاڑیوں پر بھی ہے، میاں داد جیسے کھلاڑیوں کو چاہیے کہ وہ خود سمجھداری کا مظاہرہ کریں ہمیں یاد ہے کہ جب میاں داد آخری بار ہندوستان آئے تھے کرکٹ سیریز میں حصہ لینے کے لئے ، شیوسینا نے ممبئی میں پاکستان کے میچس کی مخالفت کی تھی اس وقت میاں داد نے ٹھاکرے سے ملاقات کی خواہش کی تھی اور شیوسینا کے سربراہ بال ٹھاکرے سے ان کے مکان ماتو شری جاکر ان سے ملاقات کی تھی، کیوں۔؟
کاش اس وقت ان سے یہ سوال پاکستانی عوام کرتے کہ جس شخص نے پاکستان کی دشمنی میں تمام ریکارڈ توڑدےئے جو پاکستانی وجود کو برداشت نہیں کرسکتا، اس کے در پر حاضری کیوں دی گئی۔ نہ تو کسی پاکستانی نے اور نہ ہی کسی ہندوستانی مسلمان نے میاں داد کی مخالفت کی، بلکہ اسے اعلیٰ ظرفی قرار دیا گیا۔ حتیٰ کہ خود بال ٹھاکرے نے اس وقت میاں داد کے کھیل کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے آخری گیند کے چھکے کو ناقابل فراموش واقعہ قرار دیا تھا۔
اس وقت ہندوستان کے کئی ٹی وی چیانلس پر پاکستانی کرکٹرس مبصرین کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، رمیض راجہ، عمران خان، انضمام الحق، شعیب اختر، وسیم اکرم ہندوستانی چیانلس پر اپنے تبصروں کی وجہ سے مقبول ہیں۔ ایسے دور میں جبکہ پاکستانی کرکٹرس کے لئے IPLکے دروازے بند ہیں، ٹی وی چیانلس نئے دروازے کشادہ کئے ہیں، شاہد آفریدی اور شعیب ملک کے خیالات باہمی تعلقات کی بہتری کے حق میں ہیں۔
میاں داد اور بعض دوسرے حضرات کی تنگ نظری کا منفی اثر ہوگا۔ ضرورت اسبات کی ہے کہ وسیع القلبی اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا جائے۔ حال ہی میں ہندوستان کے روہت شرمانے شعیب اختر پر تنقید کی کہ وہ بہت زیادہ ہندوستان کی تعریف کررہے ہیں۔ ہر جگہ تنگ نظری ہے، شاہد آفریدی اور شعیب ملک ہندوستان کی تعریف کرتے ہیں تو پاکستان کے بعض تنگ نظر احتجاج کرتے ہیں، اور شعیب اختر ، تعریف کرتے ہیں تو روہت شرما کے پیٹ میں مروڑ ہوتی ہے۔ کھلاڑیوں کو عام آدمی کی سطح سے بلند ہوکر سوچنا اور خیالات کا اظہار کرنا چاہیے۔ آپ تنگ نظری کا مظاہرہ کریں اور ہندوستان سے کشادہ دلی کی توقع رکھیں یہ ممکن تو نہیں۔!
از : ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.